in , , , ,

Independence Day Stories – Jung e Azadi Epi 3

روزینہ کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ گیا۔ اسے سمجھ تو نہیں آ رہا تھا، اور آنسو خودبخود جاری ہوتے گۓ۔ ابھی تو اس نے باغ بھی جانا تھا، اور اسے بھوک بھی لگی تھی۔ اس کے پاس تو میٹھی ٹکیاں بھی نہیں تھی۔ اب وہ کیا کرے گی۔ عبد الصبور نے  سب کو سمجھایا کہ چادر سے منہ ڈھک لیں  تاکہ کوئی پہچان نہ سکے۔ کوئی پوچھے تو کہ دیں کہ عزیز کی شادی میں جا رہے ہیں۔

Partition stories

جنگ آزادی

رضیہ خانم نے سمجھایا ، ‘ بٹیا رانی ہے اس کے لۓ زندہ رہنا ہے۔ سب کوشش کر رہے ہیں، سلاخوں سے چھڑوا لیں گے۔ انگریز تو ڈرپوک قوم ہیں، وہ ہمارے ایمانی مجاہدوں کے سامنے تھوڑی ٹک پائیں گے۔’

‘ہاۓ بھابھی بیگم! سادات نے کچھ کھایا بھی نہیں ۔ وہ تو  معصوم ہے، بس اپنے ابا کے کہنے پہ چل نکلا، کاش اسے روک لیا ہوتا۔’ انھوں نے چادر آگے پھیلائی۔ ‘یہ دیکھیں یہ تو خالی ہو گئی ہے اب، کچھ نہیں بچا میرے پاس۔’

انھوں نے اسے گلے لگایا۔

روزینہ کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ گیا۔ اسے سمجھ تو نہیں آ رہا تھا، اور آنسو خودبخود جاری ہوتے گۓ۔ ابھی تو اس نے باغ بھی جانا تھا، اور اسے بھوک بھی لگی تھی۔ اس کے پاس تو میٹھی ٹکیاں بھی نہیں تھی۔ اب وہ کیا کرے گی۔

عبد الصبور نے  سب کو سمجھایا کہ چادر سے منہ ڈھک لیں  تاکہ کوئی پہچان نہ سکے۔ کوئی پوچھے تو کہ دیں کہ عزیز کی شادی میں جا رہے ہیں۔

‘اماں لیکن ہم تو نانی اماں کے پاس جا رہے ہیں۔ کیا ماموں کی پھر شادی ہے؟ ذکیہ تائی کیا مر گئی ہیں؟’

‘اللہ نہ کرے بٹیا!’ انھوں نے اسکے منہ پہ جلدی سے ہاتھ رکھا۔

‘لیکن اماں! ممتاز چچی جب مر گئی تھی تو چچا نے پھر شادی کی تھی نا!’ اسکا ننھا ذہن کچھ سمجھنے سے قاصر تھا۔

قافلہ ایسےخاموشی سے روانہ ہو گویا ماتم کا سا سماں ہو۔

روزینہ ماں کی گود میں سر رکھے سوچتی رہی۔ ‘اماں بھوک لگ رہی ہے، میٹھی ٹکیاں کھانی ہیں۔’

جلدی میں شہنشاہ بیگم نے کچھ کھانے کے لۓ نہ رکھا۔تو زرتاج بھابھی نے پوٹلی سے کچھ بادام اسے دیۓ۔ ‘لو بٹیا رانی کھا لو۔’

اس نے کن آنکھیوں سے ماں کو دیکھا اور ہاتھ آگے کر دیا۔ وہ خاموشی سے کھانے لگی، کہ ساتھ سوۓ صدام کی آنکھ کھل گئئ۔ ‘ابا کے پاس جانا ہے، میرا گھوڑا کہاں ہے۔’ نزہت آرا نے پیار سے کہا وہ آ رہے ہیں گھوڑا لے کے۔’ ابھی چاہۓ’ اور چیخنے لگا۔ وہ گھبرا گئی ‘ رو نہیں ورنہ وہ چرخے والی بڑھیا لے جاۓ گی اور تمہیں دھاگہ بنا دے گی۔’

روزینہ سوچنے لگی کہ وہ تو اچھے والی بڑھیا ہیں۔ وہ بولی، ‘چچی وہ تو اچھی والی ہیں نا۔ تم رو نہیں، یہ بادام کھا لو۔’

صدام نے منہ دوسری طرف کیا اور ماں کی بغل میں منہ دیۓ رونے لگا۔

وہ اماں سے بو لی، ‘اماں تھک گئی ہوں، رک جائیں میں نے سونا ہے۔’

شہنشاہ بیگم بولیں، ‘نا بٹیا یہاں نہیں رکنا، تم سو جاؤ میری گود میں۔’

ان کی چادر آنسوؤں  سے تر ہو چکی تھیں۔ دل تھا کہ پھٹ رہا تھا، پر بے بس و لاچار تھیں۔

دور سے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز آئی۔ سب ایک دم چوکنا ہو گئے۔ مردوں کے درمیاں گفتکو  ہوئی اور قافلہ پھر سے چل پڑا۔

سب نیند میں تھے شہنشاہ بیگم کے سوا۔

 (جاری ہے)

Written by Shaheer Ahmed

Comments

Leave a Reply

How Not to Celebrate Pakistan’s Independence Day

Freedom article

What Is True Freedom? -Aayet Nawaz Khan