Partition Stories- Khoon Mein Lipti Azadi Ki Khushi by Waleed Sarwar

اسے یاد آرہا تھا ایک رات جب وہ وہ اپنے بابا کو بتا رہی تھی کہ آزاد ملک جاتے ہی وہ سب سے پہلےاپنی سہیلی فزا سے ملے گی۔ اور سکول میں داخلہ لے کر اپنی تعلیم جاری رکھے گی۔ نئے اور آزاد ملک کے خواب دیکھ کر وہ بہت خوش محسوس کرتی تھی۔ لیکن اس کے پیچھے کی قربانی اتنی سخت ہو گی اس نے کبھی سوچا نہیں تھا۔

خون میں لپٹی آزادی کی خوشی

پھٹی ہوئی قمیض، جسم پر ناخنوں کے نشان، گلے پر سوکھے ہوئے خون کے داغ جن کے زخموں کی تکلیف اب بھی تازہ تھی۔ ایک چودہ سال کی سہمی ہوئی لڑکی  ننگے پاؤں شام کے کوئی پانچ بجے سٹیشن پر اگلی ریل گاڑی کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔

اس کے دل میں اپنے بابا کی وہ بات اب بھی گونج رہی تھی، “بیٹا تم جاؤ، سٹیشن پر میرا انتظار کرنا، میں امی کو لے کر اگلی گاڑی میں آتا ہوں۔” اسے یاد آرہا تھا ایک رات جب وہ وہ اپنے بابا کو بتا رہی تھی کہ آزاد ملک جاتے ہی وہ سب سے پہلےاپنی سہیلی فزا سے ملے گی۔ اور سکول میں داخلہ لے کر اپنی تعلیم جاری رکھے گی۔ نئے اور آزاد ملک کے خواب دیکھ کر وہ بہت خوش محسوس کرتی تھی۔ لیکن اس کے پیچھے کی قربانی اتنی سخت ہو گی اس نے کبھی سوچا نہیں تھا۔

اسی سوچ میں اسے اچانک ریل کے آنے کی آواز سنائی دی، دل اپنے ماں باپ سے ملنے کی امید لئے وہ تیزی سے ریل کی جانب بھاگنے لگی۔ ریل کے رکتے ہی اس نے دروازے سے کسی انسان  کے بجائے مختلف رنگوں  کے خون کو آپس میں ملے ہوئے باہر آتے دیکھا۔ اچانک اس کے ارد گرد چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ سن دماغ لئے بھیڑ کو چیرتے ہوئے اس نے ریل کے اندر پہلا قدم رکھا وہ جو اپنے بابا کا مسکراتا ہوا چہرا دیکھنا چاہتا چاہتی تھی اسے کٹے ہوئے جسموں ، بکھری ہوئی انتڑیوں اور خون کے سوا کچھ نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اپنی ماما کی آواز سننا چاہتی تھی اسے پوری گاڑی میں سوائے چیخوں کے کسی بھی چیز کی آواز سنائی نہیں  دے رہی تھی۔ اپنی شلوار کو تازہ خون کی چھینٹوں سے بچاتی ہوئی وہ ریل کی بوگیوں میں اپنے بوڑھے ماں باپ کو ڈونڈھ رہی تھی۔  کہ اچانک اسکی نظر ایک بازو پر پڑی جسکی کلائی میں وہی گھڑی تھی جو اس کے بابا کی کلائی میں ہو کرتی تھی۔ اس نے فوراٗ سے ہاتھ کے اوپر جسم کو ہٹانے کی کوشش کی لیکن جب وہ ناکام رہی تو اس نے اپنے بابا کا ہاتھ زور سے کھینچا ۔ لیکن اس کا دل یہ دیکھ کر پوری طرح بند ہو گیا کہ اس جسم کی کے نیچے صرف اس کے بابا کا بازو باہر آیا تھا۔ جو بچی مچھر کے کاٹنے پر اگر خون نکلے تو بیمار ہو جاتی تھی۔ ۔ اس ملک کی جدوجہد میں اپنے بابا کا کٹا ہوا بازو پکڑے باقی جسم ڈھونڈتی رہی۔

دو گھنٹے مزید ڈھونڈنے پر بھی اسے ماں  اور بابا  کا کوئی نشاں تک نا ملا اور وہ باہر آ کر ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔ وہی گھڑی، وہی ہتھیلی پر جلنے کا نشان مگر اس کا دل اب بھی یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ وہ اس کے بابا کی تھی۔

اب رات کے گیارہ بج چکے تھے اس گاڑی کے بعد دو گاڑیاں اور بھی سٹیشن پر آچکی تھیں پر اب تک اس کی ماما بابا کی اس کٹے ہوئے بازوکے علاوہ کوئی اور خبر نا تھی۔ اردگرد مائیں اپنے زخمی بچوں کو مرہم  لگا رہی تھیں، چھوٹے بچے پانی بھر بھر کے سب کو پلا رہی تھے۔ اب سب خاموش تھے لیکن ہر گاڑی کے آنے پر یہ خاموشی  پھر سے چیخوں میں بدل جاتی تھی۔ وہ اسی سوچ میں بیٹھی تھی کہ اب وہ اس نئے ملک میں کہاں رہے گی؟ کھانا کیسے کھائے گی؟ یہاں سے اب کہاں جائے گی؟ کہ اچانک لوگوں میں شور برپا ہو گیا۔  “مبارک ہو ہم آزاد ہیں” ، “مبارک ہو ہم آزاد ہیں” اور آس پاس کے سب بچے بوڑھے خوشی سے جھومنے لگے۔

٭ولید سرور نوجوان لکھاری، شاعر اور بریف چیریٹی پروگرام  اسلام آباد  کے بانی ہیں۔ وہ معاشرے کے مختلف مسائل پر مختصر کہانیاں اور افسانے بھی لکھتے ہیں۔ فی الحال، وہ حقیقی واقعات پر مبنی ایک ناولٹ پر کام کر رہے ہیں۔

Instagram:

https://instagram.com/waleedsarwar?igshid=YmMyMTA2M2Y=\

Written by Shaheer Ahmed

Comments

Leave a Reply

Serena Williams Announces Her Intention to Retire From Tennis

The Queen Of Pop – Nazia Hassan