ایک دم سے گولیوں کی اواز آئی۔ خواتین بیدار ہو گئیں۔
سب نے چہر ے چھپا لۓ۔ رات کا تیسرا پہر تھا۔
باہر موجود مردوں کے درمیاں گرما گرمی ہوئی۔ اچانک سے ایک انگریز نے پردہ اٹھایا اور لالٹین سے سب کو دیکھنے لگا۔
روزینہ کی آنکھ ایک دم سے کھل گئی، کوئی اونچی آواز میں بولے چلا جا رہا تھا۔ ماں نے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا۔
انگریز پوچھ تاچھ کے بعد وہاں سے ہٹھا تو روزینہ نے زور سے بولا، ‘ان انگریز صاحب سے پوچھیں کہ ابا اور بھائی کب آئیں گے۔’
انگریز کے قدم رکے اور اسے لگا یہ وہی ہیں جس کی اسے تلاش تھی۔ اس نے دوبارہ پردہ ہٹھایا اور پوچھا، ‘بی بی تمہارا ہزبیننڈ کہاں ہے؟’ شہنشاہ بیگم خاموش رہی۔روزینہ ڈر گئی۔ ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ‘ہم تم سے کچھ پوچھتا’
انہوں نے سر نفی میں ہلایا۔ اس نے بندوق سر پہ رکھی۔ ‘بتاتا یا ہم شوٹ کرتا۔’ روزینہ جلدی سے بولی،’انگریز چاچا ابا بھائی کو لے گۓ ہیں۔ اماں کو نہیں پتا۔’ انگریز سے بندوق کا پچھلا حصہ شہنشاہ بیگم کے سر پہ مارا۔ ‘یہ چائلڈ کیا بولتا؟ آنسر۔’
خون سے چادر رنگین ہو گئی۔
‘اماں’ روززینہ چلائی۔
انگریز نے روزینہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔
‘صاحب ہم نے کچھ نہیں کیا۔ شوہر کا پتہ نہیں۔’
تم کو سب پتہ ہو تا’۔ انگریز نے گرجدار آواز میں سپاہی کو بلایا۔’اس وومن سے پوچھو وئیر از ہر ہزمینڈ؟’
‘آپ کے شوہر کہاں ہیں، بتا دیں ورنہ یہ آپ کو مار دے گا۔’
نہیں پتا بھائی! یہی اٹھا کے لے گۓ تھے، ہم تو بس جان بچا کے نکلے ہیں۔ ‘
واٹ ڈڈ شی سے؟ ‘
‘شی سیڈ دا سولجرز ٹوک دیم اوے۔’
‘یو کلیور اولڈ لیڈی! یو آر پلینگ گیمز ودھ می۔ میں تم کو سمجھتا۔’
اس نے روزینہ کو زور سے کھینچ کے باہر نکالا۔
شہنشاہ بیگم نے روزینہ کو چھڑانے کی مزاحمت کی تو بندوق سے گولی ان کے سینے میں اتر گئی۔ روزینہ چلائی’اماں’
انگریز نے اسے اسے کھینچا۔ وہ آگے بڑھی تو ایک اور گولی ان کے سینےمیں چھید کرتی نکل گئی۔
باقی بیگمات حیرت میں مبتلا جم سی گئی۔
انگریز روزینہ کو لے نکل گیا۔
شہنشاہ بیگم کا آدھا دھڑ سیٹ پہ اور آدھا ہوا میں معلق تھا۔ خون ندی کی طرح بہے چلے جا رہا تھا۔
روزینہ کی آخری دفعہ آواز آئی۔’اماں!! چھوڑو۔مجھے اماں اماں!!’
شہنشاہ بیگم سوہارن پور سے سہاگ لے کے نکلیں تھیں لیکن سہارن پور پہنچنے سے پہلے اس بار ان کا سہاگ کسی اور کے ہاتھوں اجڑ گیا۔
ساری زندگی خوف کے سائے میں گزار دی کہ ماں کے بعداپنا سہاگ سلامت رہے۔ لیکن باپ اور بھائی کو کھونے کے بعد وہ اکیلے اس خوف کا شکار ہو گئیں۔
روزینہ کہاں گئی کوئی اتا پتا نہیں چل سکا۔ اسکے باپ اور بھائی پھانسی چڑھا دیے گۓ۔
کہیں کہیں آتا ہے کہ اس کی شادی کسی انگریز سے ہو گئی۔ کچھ کہتے ہیں اس نے خودکشی کر لی۔ یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
صبا کی آنکھ کھلی تو فرش پہ اسکے خاندان کی تصویر ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی تھی۔ وہ چونک کے اٹھی اور جلدی جلدی سے کرچیاں چننے کی کوشش کرنے لگی لیکن اسکے ہاتھ خون سے لت پت ہو گۓ۔ شاید اب وہ آخری رشتہ جو تصویر کی صورت میں اسکی دیوار پہ ٹنگا تھا، ٹوٹ گیا تھا اور وہ پھر سے لاوارث رہ گئی تھی۔۔۔۔