Independence Day Stories – Jung e Azadi Epi 2

اتنا کچھ لٹنے کے بعد یہ آخری سہارا بھی سرک گیا۔ اب تو اماں جان کی طرف بھی الو ہی بولتے ہوں گے۔ کس منہ سے وہاں جاؤں گی یہ اجڑا سہاگ لے کر۔ ٹانگے میں بیٹھے نعیم میاں مسلسل بولے چلے جا رہے تھے۔’بھابی بیگم آپ فکر نہ کریں، اللہ کے فضل سے ہم ان انگریزوں کو نکالا۔

‘!جی بھائی’

‘وہ بمشکل پلٹیں اور روزینہ کو آواز دی۔’ بٹیا رانی

‘!وہ جلدی سے لپکی۔ ‘جی اماں جان!

نعیم میاں کو اس حلیے میں دیکھ کر گھبرا گئی۔

‘کیا ہوا چچا جان’

‘کچھ نہیں بٹیا رانی! ہم آپ کی نانی اماں کی طرف جا رہے ہیں۔ جلدی سے تیار ہو جائیے۔’

شہنشاہ بیگم  اندر کمرے میں آئیں۔ چند زیورات اور  کپڑوں کی پوٹلی بنائی۔

باہر آ کے چابیاں نعیم میاں کو دی۔’ نعیم میاں یہ اب آپکے حوالے۔’

نعیم میاں نے انہیں ڈھارس بندھائی۔ انھوں نے آخری دفعہ گھر کو دیکھا۔ ایک مٹھی مٹی کی اٹھائی اور دوپٹے میں باندھ لی۔ دو آنسو ٹپکائے اور خاموشی سے نعیم میاں کے پیچھے لاش کی طرح ہو لی۔

اتنا کچھ لٹنے کے بعد یہ آخری سہارا بھی سرک گیا۔ اب تو اماں جان کی طرف بھی الو ہی بولتے ہوں گے۔ کس منہ سے وہاں جاؤں گی یہ اجڑا سہاگ لے کر۔

ٹانگے میں بیٹھے نعیم میاں مسلسل بولے چلے جا رہے تھے۔’بھابی بیگم آپ فکر نہ کریں، اللہ کے فضل سے ہم ان انگریزوں کو نکال کے رہیں گے۔

نعیم بھائی! آپ کیا نکالیں گے انھوں نے ہمیں ہی گھر بدرکر دیا ہے۔ آخری آسرا تھا، وہ بھی چھن گیا۔’ وہ دوپٹہ منہ میں ڈالے بولیں۔’

نعیم میاں پیچھے کو مڑے اور ان کے سر پہ ہاتھ رکھا۔’ بھابھی بیگم ہم آپ کی کیفیت سمجھ سکتے ہیں، لیکن کچھ پانے کے لئے تکلیف تو اٹھانی پڑھتی ہیں۔ ہماری جدوجہد ضایع  نہیں جائے گی، خدا پر یقین رکھئے۔’

شہنشاہ بیگم کچھ نہ کہ سکیں۔

سوھن سنگھ محلے میں سب جمع تھے۔ نعیم میاں نے جلدی سے انھیں اتارا اور عبدل الصمد کے حوالے کیا۔ وہ سب کو لے کر جانے کے ذمہ دار تھے۔ روزینہ سب کو بوکھلائے دیکھتی رہی۔ اس کی گڑیا اس کی گود میں اوندھی پڑی تھی۔ سب خواتین بے بسی کی مثال بنی بیٹھی تھی۔

رضیہ خانم نے شہنشاہ بیگم کو گلے لگایا اور تسلی دی۔

‘بھابھی بیگم! لٹ گۓ ہیں بے گھر ہو گۓ ہیں۔ میں ان کے بغیر رہ کے کیا کروں گی’

(جاری ہے)

Written by Shaheer Ahmed

Comments

Leave a Reply

For All Religions and Sects – An Insight into Ashura and Tragedy of Karbala

Partition Stories: The Letter (Fiction)