وہ بے ساختہ اس کا نام پکارے جا رہی تھی۔لیکن وہ تھا کے نا بول رہا تھا اور نا ہی سن پا رہا تھا۔جمیلہ یہ ماننے کو تیار ہی نا تھی کہ اس کے ننے بھائی کو چند دیوہیکل سکھوں نے خنجر کے وار کرکے قتل کردیا تھا۔ اپنے ننے بھائی کو جو ابھی تک اپنی باجی کی سہیلیوں کے ساتھ لڑکیوں والے کھیل کھیلا کرتا تھا، آج دنیا سے چلا گیا تھا۔
جمیلہ کے ابا کو خدشہ تھا کے آزادی کی جنگ میں پنجاب کے ہندو جو سر پر پگ پہن کے خود کو سکھ ظاہر کررہے تھے۔اس کی جمیلہ کی عصمت کو روند نا ڈالیں ۔ان کم ظرفوں کا یہ شیوہ تھا۔جمیلہ کے ابا نے اسے اور اس کے چھوٹے بھائی کو جالندھر سے لاہور بھیجنے کیلئے اسے اپنے بھائی اور احباب کے ساتھ رخصت کرنے کا فیصلہ کیا۔اپنے آخری ایام وہ جالندھر میں ہی گزارنا چاہتا تھا۔یقینا وہ واقف تھا کہ ابھی نہیں تو رات تک اس کی آخری سانسیں ہیں۔کیونکہ سکھوں نے جالندھر میں مسلمانوں کی لاشوں کے ڈھیر لگانا شروع کردیے تھے۔
وہ چچا کے ساتھ اپنے ننھے بھائی کو لے کے لاہور کے راستے کی طرف بھاگ رہی تھی۔لیکن یکدم بھگدڑ مچی اس کا ننھا بھائی جو کالی قمیض پہنے تھا، اب لال ہو چکی تھی۔اس کی سانس اب تھم چکی تھی۔وہ آسمان کی طرف دیکھ کے ایسے چلا رہی تھی۔گویا ابھی دھرتی پھٹ جائے گی اور قیامت برپا ہوجائے گی ۔قیامت تو برپا ہو چکی تھی۔
اس کا بھائی باپ سب مر چکے تھے۔ بھائی کی لاش اسے ویرانے میں ہی لاوارث چھوڑنی پڑی۔
تین دن تک مسلسل جھڑپوں کا سلسلہ تھم نا پایا، اب امرتسر پنجاب کا رخ کر چکا تھا۔
جمیلہ کا چہرہ بھوک سے ایسے مرجھا گیا تھا ۔جیسے اس کی زندگی سے نوالوں کی تعداد ختم ہو چکی تھی۔راستے میں جمیلہ کے ہاتھ ایک خنجر بھی لگ گیا۔اب وہ امرتسر میں موجود تھی۔ کہ اسےآزادی کے مخالف چند ناسور گدھوں نے آ دبوچا ان کے ہاتھ میں لکڑیاں جن میں لگی آگ ان کی ناپاک آنکھوں کو دیکھنے میں مدد کر رہی تھی۔ جمیلہ ان کی ناپاک آنکھوں میں چھپے نیچ عزائم کو بھانپ چکی تھی۔
میں کہندی آں اگے نی آنا جے کوئی اگے آیا میں خنجر نال اونوں مار دیاں گی۔کوئ میرے نیڑے نا آوے ۔ اس کی یہ باتیں سن کر ایک ناسور جس کا اصلی نام رمیش کمار تھا۔لیکن یہاں اس نے پگڑی پہنی تھی۔آگے بڑھا جیسا جمیلہ نے بولا تھا کہ اگر کوئی آگے بڑھا تو خنجر اس کے آر پار ہوگا۔
جمیلہ نے ویسا ہی کیا۔فرق اتنا تھا کہ جمیلہ نے اسے خنجر کو رمیش کی بجائے اپنے پیٹ میں گھونپ دیا۔رمیش ایک قدم پیچھے ہٹا اور اپنے ساتھیوں سمیت راہ فرار اختیار کی یقیناً کسی اور باپ کی جمیلہ کو دبوچنے نکلا تھا۔
خنجر کے گھاؤ سے جمیلہ مرچکی تھی۔اس کے منہ سے بھی خون بہے رہا تھا۔
آذان کی آواز اب آنا شروع ہوگئی تھی۔
محمد علی محمدین۔