وہ چچا کے ساتھ اپنے ننے بھائی کو لے کے لاہور کے راستے کو ہرن کی چستی لیے پھلانگ رہی تھی۔لیکن یکدم بھگدڑ مچی اس کا ننا بھائی جو کالی قمیز پہنے تھا اب لال ہو چکی تھی۔اس کی سانس اب تھم چکی تھی۔وہ آسمان کی طرف دیکھ کے ایسے چلا رہی تھی۔
روزینہ کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ گیا۔ اسے سمجھ تو نہیں آ رہا تھا، اور آنسو خودبخود جاری ہوتے گۓ۔ ابھی تو اس نے باغ بھی جانا تھا، اور اسے بھوک بھی لگی تھی۔ اس کے پاس تو میٹھی ٹکیاں بھی نہیں تھی۔ اب وہ کیا کرے گی۔ عبد الصبور نے سب کو سمجھایا کہ چادر سے منہ ڈھک لیں تاکہ کوئی پہچان نہ سکے۔ کوئی پوچھے تو کہ دیں کہ عزیز کی شادی میں جا رہے ہیں۔
The sound of the water drops was haunting her constantly. The sky outside was bland, lacking all the sunlight. Her life was no different. It lacked sunshine, and it had been like that for more than a year or two.
بس تمہارے ابو اور بھائی کی فکر ہے۔’ ‘وہ تو میرے لئے چیزیں لینے گئےہیں نا!’ شہنشاہ بیگم کو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ اس ننھی جان کو کیا بتائیں۔۔۔ تسبیح پہ ان کی انگلیاں تیزی سے چلنے لگی۔